… سید شاہد حسن کے قلم سے
آرٹیکل 149(4) کا کسی نے مطالعہ کیا ہی نہیں
کراچی کو دار الخلافہ بنانے کی تجویز بھی بے وقت کی راگنی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم ملک کے قابل ترین قانون دان ہیں۔ اُن سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے کراچی میں وفاقی حکومت کی عملداری کے لئے آرٹیکل 149(4) کی بات بلا سوچے سمجھے کی ہوگی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فروغ نسیم کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے جس کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی کو سندھ سے الگ کیا جائے اور سندھ میں جنوبی سندھ صوبہ بنایا جائے۔ فروغ نسیم کی تجویز سے قبل ہی ایم کیو ایم پاکستان اور میئر کراچی کی جانب سے کراچی میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ کراچی کے مسائل یقینا فوری توجہ کے متقاضی ہیں اس مرحلے پر وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی کمیٹی کے قیام کا اعلان ہوتے ہی ایم کیو ایم کے تمام حلقوں کی جانب سے کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کا مطالبہ شدت سے کیا جانے لگا جبکہ فروغ نسیم آرٹیکل 149(4) کی اصل روح کی وضاحت کرتے رہے مگر اُن کی آواز پر خود ان کی اپنی جماعت اور دیگر اتحادی اور مخالف جماعتوں نے اپنے اپنے انداز میں خیال آرائی شروع کردی۔ بیان بازی‘ تجزیوں اور تبصروں کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ تحریک انصاف بھی میدان عمل میں آگئی اور اعلان کیا گیا کہ سندھ کو کسی صورت میں تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سندھ کی تقسیم کی بات کرنے کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ بلاول بھٹو نے سندھو دیش بننے کی بات کی تو تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی شہر یار شر نے اپنی پارٹی قیادت سے فروغ نسیم کو وزارت قانون سے ہٹانے کا مطالبہ کر ڈالا۔حالانکہ اس میں ڈاکٹر فروغ نسیم کا کوئی قصور نہیں تھا۔ کراچی کمیٹی کا 14 ستمبر کا اجلاس ہونے والا تھا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے وزیراعظم عمران خان خود کراچی تشریف لارہے تھے مگر وزیراعظم کا یہ دورہ آرٹیکل 149(4) کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مذکورہ کمیٹی میں دو روز قبل ہی توسیع کی گئی تھی جس میں جی ڈی اے کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کے نام کا بھی اعلان کیا گیا مگر انہوں نے کمیٹی میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ ایسی کمیٹی کی رکن نہیں بن سکتیں جو صرف کراچی کے لئے بنائی گئی ہو۔ اس تمام صورت حال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل 149(4) کا مطالعہ کرنے کی زحمت کسی نے بھی نہیں کی یہاں تک کہ خود فروغ نسیم کی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بھی اس آرٹیکل کی اُس کی روح کے مطابق وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کررہی اور کراچی کا معاملہ جہاں تھا وہیں چھوڑ دیا گیا۔ فروغ نسیم نے کسی مرحلے پر یہ نہیں کہا کہ کراچی کو سندھ سے الگ ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس معاملے کو میڈیا نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور وہ باتیں بھی فروغ نسیم سے منسوب کی گئیں جو انہوں نے کہی ہی نہیں تھیں ڈاکٹر فروغ نسیم یہ کہہ رہے تھے کہ لوکل گورنمنٹ کو بااختیار ہونا چاہیے اور وفاقی حکومت آرٹیکل 149(4) کے تحت صوبائی حکومت کو مشورہ دے سکتی ہے اور یہ بات تو کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ مشورہ تو مشورہ ہوتا ہے جو باہمی اعتماد کے ذریعے عمل پذیر ہوتا ہے ۔ معلوم نہیں میئر کراچی اور ایم کیو ایم پاکستان نے کس بنیاد پر یہ تصور کرلیا کہ کراچی کو وفاق کے سپرد کیا جارہا ہے اس پر انہیں ضرور سوچنا چاہیے۔