Home / کالم مضامین / میرپور خاص سول اسپتال میں بچے کی انسانیت سوز موت

میرپور خاص سول اسپتال میں بچے کی انسانیت سوز موت

آج کی بات…. سید شاہد حسن کے قلم سے
ایمبولینس نہ ملنے پر بچے کی میت موٹر سائیکل پر لے جانے والا باپ اور چچا
ٹرک نے دونوں کو کچل دیا ‘ ایک کی جگہ تین لاشیں پہنچنے پر علاقے میں کہرام
اگر یہ واقعہ کسی مہذب ملک میں پیش آتا تووہاں ایک طوفان بپا ہوجاتا لیکن کیونکہ ہم بے حس معاشرے میں زندہ ہیں اور اس قسم کے واقعات کے عادی ہوچکے ہیں اس لئے ایسے شرمناک واقعات پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ انسانیت سوز واقعہ میرپورخاص میں پیش آیا جہاں بچے کی میت تدفین کے لیے لے جانے والا باپ اور بچے کا چچا ٹرک کے کچلنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ میرپورخاص کے سول اسپتال میں تین سالہ بچہ ڈائریا کے سبب انتقال کرگیا۔ بچے کی میت کو اسپتال سے آبائی علاقے لے جانا تھا مگر حکومتِ سندھ کے محکمہ صحت کے اس اسپتال کی انتظامیہ نے مظلوم باپ کو ایمبولینس دینے سے انکار کردیا اور بتایا گیا کہ ایمبولینس کے لیے ہمارے پاس پیٹرول تک کے پیسے نہیں ہیں۔ نامہ نگار کی اطلاع کے مطابق اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرائیور نے دو ہزار روپے کے عوض بچے کی میت لے جانے کی پیشکش کی۔ غریب باپ کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے جس پر انہوں نے اپنے بچے کی میت موٹر سائیکل پر گاؤں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بچے کی میت لے جارہے تھے کہ کھپرو روڈ پر ایک تیز رفتار ٹرک نے مرحوم بچے کے باپ اور چچا کو کچل دیا جو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ جس گھر میں بچے کی میت پہنچنی تھی وہاں ایک ساتھ تین لاشیں پہنچیں تو پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق سول اسپتال کے ڈاکٹر خلیل کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ہم سے کسی نے ایمبولینس مانگی ہی نہیں تھی۔ اگر یہ بات درست مان بھی لی جائے تو عملے نے پیٹرول نہ ہونے کا موقف کیوں اپنایا۔ ایمبولینس کے ڈرائیور نے دو ہزار روپے کس کے کہنے پر طلب کئے۔ اس واقعہ نے پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ بظاہر تو وزیراعلیٰ سندھ نے اس واقعہ کا نوٹس تو ضرور لیا ہے ایسے نوٹسز کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ایسے واقعات روز کا معمول ہیں۔ چند روز قبل اپنی مغوی بچی کو دیکھ کر سجاول کا بوڑھا باپ عدالت میں دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں اس کی لاش بے گور و کفن پڑی تھی۔ آخر کار ایک لیڈی ٹریفک پولیس اہلکار کو ترس آیا اور اُس نے راہگیروں سے چندہ جمع کرکے بوڑھے شخص کی لاش آبائی علاقے روانہ کرنے کے انتظامات کیے اس حوالے سے اخبارات میں رپورٹس چھپیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ ہم اجتماعی بے حسی کا شکار ہیں۔ بدترین حکمرانی کی اس سے بڑی اور کیا مثالیں ہوسکتی ہیں المیہ تو یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کے ایک نوٹس پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ نوٹس سچا ہو یا جھوٹا…. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میرپورخاص سول اسپتال کے پورے عملے کو گرفتار کرلیا جاتا۔ بچے اور اُس کے باپ اور چچا کی فوری اور موقع پر مدد کی جاتی مگر وزیراعلیٰ کی جانب سے صرف نوٹس لےا گیا دیکھتے ہیں اس نوٹس پر وزیراعلیٰ ایکشن کیا لیتے ہیں اور مظلوم خاندان کی کس طرح داد رسی کی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے