Home / کالم مضامین / آئی ایم ایف کے وفد کی پھر آمد کیوں؟

آئی ایم ایف کے وفد کی پھر آمد کیوں؟

آج کی بات…. سید شاہد حسن کے قلم سے
وزیراعظم کی معاشی ٹیم نے یہ امید افزا خوشخبری سنائی ہے کہ قومی معیشت بحران سے نکل آئی ہے اور اب استحکام کی جانب گامزن ہوچکی ہے۔ معاشی استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں (بقول معاشی ٹیم کے) 580 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا گیا اور رواں مالی سال کے دوران ٹیکسوں کے ذریعے ایک ہزار ارب روپے اکٹھا ہوجائےگا۔ اللہ کرے کہ یہ دعوے درست ہوں اور پاکستان معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہوجائے ورنہ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال عوام‘ کاروباری طبقہ اور قومی معیشت پر بہت بھاری گزرا ہے۔ ایک سال کے دوران ملکی ترقی کے تمام دعوے اور حکومتی فارمولے ناکام ثابت ہوئے اور عوام کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ روزانہ نئے سے نئے تجربات اور پالیسیوں کے عدم استحکام اور عدم تسلسل‘ ایکسپورٹ میں جمود نے معیشت پر جمود طاری کردیا۔ اس کے باوجود وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے سرخیل ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شبر زیدی قوم کو امید دلا رہے ہیں تو اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا درست نہیں ہے مگر اُن اعداد و شمار کو کیسے نظر انداز کیا جائے جو ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ پارلیمنٹ ہاؤس کو بھجوائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں اور وزارتوں میں اب بھی 14562 ارب روپے مالی بے قاعدگیوں کی نذر ہورہے ہیں۔ شاید آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ معاشی ٹیم کی نظر سے نہیں گزری۔ حکومتی معاشی ٹیم کواسٹیٹ بینک کی اس رپورٹ کو بھی یقینا نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے جولائی میں 1237 ارب روپے قرضہ لیا جس کے بعد حکومتی قرضوں کا حجم 33 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مجموعی قرضوں میں مقامی قرض 23 ہزار 12 ارب روپے ہے جبکہ حکومت کا بیرونی قرضہ11 ہزار ارب روپے ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ حکومت نے ایک سال میں 8333 ارب روپے قرض لیا۔ معاشی ٹیم نے وزیراعظم کو بھی سہانے خواب دکھائے ہیں جس پر وزیراعظم نے ٹیم کو یہ ذمہ داری دی تھی کہ معیشت پر بے بنیاد پروپیگنڈے کا موثر جواب دیا جائے مگر معاشی ٹیم نے عوام پر قیامت برپا کرتے ہوئے مہنگائی کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ محض دعوے کئے گئے ٹیکس نیٹ میں توسیع ہوگئی ہے ‘ ٹیکس وصولیاں بہتر ہوگئی ہیں‘ برآمدات بڑھ گئی ہیں۔ تجارتی خسارہ گھٹ گیا ہے۔ نجی کاروباری سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں یہ دعوے ایسے وقت میں کئے گئے ہیں جب پاکستان کی معاشی کارکردگی پر آئی ایم ایف عدم اطمینان کرچکا ہے اور اب آئی ایم ایف کا مشن نئی ہدایات لے کر پاکستان میں وارد ہوچکا ہے۔ حکومتی ذرائع میڈیا کو آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد کے بارے میں کچھ بتانے کو تیار نہیں ہیں لیکن آئی ایم ایف اپنے اہداف کے مطابق معاشی صورت حال کا جائزہ لینے آیا ہے۔ آئی ایم ایف نے 648 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا تھا مگر حکومت 580 ارب روپے کا ہدف پورا کر سکی ہے اور اس حوالے سے وجوہات کے بارے میں یقینا قومی معاشی ٹیم کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے