آج کی بات …سید شاہد حسن کے قلم سے
عین اُس وقت جب وزیراعظم عمران خان قوم کو معاشی استحکام کی خوشخبری سنا رہے تھے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹرنگ پالیسی کا اعلان کرکے قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ آئندہ دو ماہ کے دوران مہنگائی توقع سے بھی زیادہ بڑھے گی۔ صنعتی پیداوار کم ہورہی ہے۔ عین اُس وقت جب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ کر حکام سے مذاکرات کررہا ہے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان مہنگائی پر دہائی دے رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے معاشی پالیسیوں کے خالق مشیر خزانہ سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ بتائیں کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان کیوں آیا ہوا ہے۔ ان ارکان قومی اسمبلی کا موقف یہ ہے کہ مہنگائی کے خلاف ایوان میں ہمیں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ عین اُس وقت جب آئی ایم ایف اسلام آباد میں موجود ہے‘ حکومتی ارکان پوچھ رہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرائط کیا ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان بڑی سخت زبان استعمال کررہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایوان میں چینی والوں‘ صنعتکاروں کے لئے تو سب بولتے ہیں مگر غریب کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا جو مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن نور عالم تو بہت ہی غصے میں نظر آئے اور انہوں نے مہنگائی کے خلاف نہ بولنے والوں پر لعنت تک بھیج دی۔ یہ منظر نامہ عین اُس وقت کا ہے جب وزیراعظم یہ فرما رہے تھے کہ ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے والوں سے کوئی ڈیل ہوگی نہ کمپرومائز ہوگا اور اُن کی اپنی جماعت کے ارکان کہہ رہے ہیں کہ درست احتساب نہیں کرسکتے تو اسے بند کردیں۔ ہم یہاں ڈیسک بجانے نہیں آتے اس صورت حال میں ہم استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔ حالات فوری اصلاح کے متقاضی ہیں۔ طفل تسلیوں کی وجہ سے اب خود تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی پیداہورہی ہے‘ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا ایک اور بڑا حملہ متوقع ہے کیونکہ دنیا تیل کے بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کے نرخ بڑھیں گے اور پاکستان بھی اس کی زد میں آئے گا۔ حکومتی مشینری مارکیٹ میں اپنے اقدامات سے پیدا ہونے والی مہنگائی کو کم نہیں کرسکی۔ منافع خور جی بھر کر صارفین کا استحصال کررہے ہیں۔ حکومت نے افراطِ زر کی شرخ چھ فیصد مقرر کی تھی لیکن یہ اب 11.68 فیصد ہوچکی ہے جس کے اثرات عام شہریوں پر پڑرہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت ایک بار پھر زوال کا شکار ہے۔ قرض لینے کے مرض کا علاج آئی ایم ایف نے مزید قرض لے کر کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ اور کرنسی کو آزاد چھوڑنے کے سنگین سماجی اثرات برآمد ہوں گے۔ اس کے باوجود اگر یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ معیشت بحران سے نکل رہی ہے تو ہمیں کسی معجزے کا انتظار کرنا چاہیے۔