Home / کالم مضامین / وزیراعظم کا دورہ کراچی ‘ سندھ حکومت نظر انداز

وزیراعظم کا دورہ کراچی ‘ سندھ حکومت نظر انداز

اپوزیشن سے دوریاں بڑھنے کے بعد مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟
2014ءکے دھرنے نے معیشت کو جھٹکا دیا‘ فضل الرحمان کا دھرنا بیڑہ غرق کردےگا
آج کی بات……..سید شاہد حسن کے قلم سے
وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر کراچی تشریف لائے ۔ انہوں نے چند گھنٹے قیام کیا اور اُس کے بعد وہ جب روانہ ہوگئے اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ وزیر اعظم پاکستان نے سندھ حکومت سے کوئی رابطہ کیا نہ وزیراعلیٰ کو ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ وزیراعظم نے گورنر سندھ سے ملاقات کی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم پاکستان اور جے ڈی اے کے وفود سے ملاقاتیں کیں۔ شکوے شکایات سنی‘ ہدایات دی‘ احکامات دیئے اور وہ روانہ ہوگئے۔ عمران خان کا یہ طرز عمل اُن کے سخت رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ چند روز قبل اسلام آباد میں علماءکے ایک وفد سے بھی ملاقات کی تھی جس میں علماءکرام نے وزیراعظم کو مولانا فضل الرحمان کے بارے میں انہیں سخت زبان استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے اس مشورے کو رد کردیا تھا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے بھی وزیراعظم نے کبھی مشاورت نہیں کی۔ بحیثیت قوم اس وقت ہم بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ ہم اپنے ان رویوں کی بدولت 13 ماہ میں اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر طرف سے حکومت مخالف صدائیں آرہی ہیں۔ اگر حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو آج ایک بار پھر 2014ءکا سیاسی منظر دکھائی دے رہا ہے۔ دھرنوں کے لئے زمین کو خود تحریک انصاف نے ذر خیز بنایا تھا۔ اُس وقت بھی ملک میں سیاسی بے چینی تھی اور آج بھی عملاً کوئی ایک شعبہ¿ زندگی بھی مطمئن نظر نہیں آتا۔ تاجر برادری ہڑتال کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس گلزار احمد نے پنجاب کے اسپتالوں کی حالت کو بدترین قرار دے کر تحقیقات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ ان حالات میں مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ اور دھرنے کی کال دی ہے جس کے نتائج کچھ بھی ہوں ایک بات طے ہے کہ ملکی معیشت کو شدید جھٹکا لگے گا۔ 2014ءمیںہی پی ٹی آئی کے 126 روزہ دھرنے نے قومی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا تھا اور اب بھی کسی دھرنے کے نتیجے میں کوئی مثبت نتیجہ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ آزادی مارچ والوں سے مذاکرات کے لئے وزیراعظم نے وفاقی وزیر پرویز خٹک کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی تھی تو یہ امید ہوچلی تھی کہ مارچ اور دھرنے کی نوبت آنے سے قبل ہی افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکال لیا جائے گا مگر اسی روز وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے یہ کہہ دیا کہ ملک میں پہلی بار قومی اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔ اس جملے پر مولانا کا سیخ پا ہونا فطری امر تھا اس کے باوجود ایک مرحلہ یہ بھی آیا کہ فریقین کے فود کی ملاقات کے لئے دن اور وقت تک طے ہوگیا مگر پھر ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیاست تحمل اور بردباری کا نام ہے۔ دلائل سے بات منوانے کو ہی کامیاب سیاست قرار دیا جاتا ہے مگر کوئی اپنے مخالف سیاسی شخصیت کا مذاق اڑائے گا۔ اپنی ہی حکومت کے ایک لازمی جزو یعنی حکومت سندھ سے تعلق توڑ لے گا تو بھلا ملک میں نہ سیاسی نظام قائم رہ سکتا ہے نہ ہم اپنی معاشی سمت کو درست کرسکتے ہیں۔ دورہ کراچی میں وزیراعظم کا یہ کہنا شاید درست ہے کہ انہیں تباہ حال معیشت ملی تھی مگر معاشی طور پر بہتری کیا محض نعروں اور دعوؤں سے آجائے گی جب مخالف سیاسی رہنماؤں کو دھکیل کر دیوار سے لگا دیا جائے گا اور آپ کی کابینہ اور جماعت کا ہر چھوٹا بڑا عہدےدار اپنے مخالفین کے بارے میں بیان داغتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام نہیں لے گا تو پھر کون سے مذاکرات‘ کیسی صلح صفائی اور کامیابیوں کے دعوے کیوں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے