فٹ پاتھ شہریوں کے چلنے کیلئے ہیں ‘ فوراًخالی کرائے جائیں ‘ سندھ ہائیکورٹ
کراچی کے ہر علاقے میں فٹ پاتھوں پر قبضہ ہوٹل اور پتھارے دوبارہ قائم ہوگئے
آج کی بات……..سید شاہد حسن کے قلم سے
سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے حکم جاری ہوئے 48گھنٹے گزر چکے ہیں مگر کراچی کے ہر علاقے میں فٹ پاتھوں پر تجاوزات بدستور موجود ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس کی سماعت منگل کی صبح عدالت کے دو رکنی بیچنے کی اور میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر متعلقہ اداروں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر قائم کی گئی تجاوزات کا فوری خاتمہ کروائیں ‘ فٹ پاتھ لوگوں کے چلنے کے لیے ہوتے ہیں ‘ اگر شہری فٹ پاتھ کے بجائے سڑکوں پر چلیں گے تو ٹریفک حادثات تو بڑھیں گے۔ میئر کراچی اپنی رپورٹ میں بتائیں کہ فٹ پاتھوں پر تجاوزات کی اجازت کون دے رہا ہے ‘ بلدیہ کراچی اور ضلعی بلدیاتی ادارے اپنی حدود پر جھگڑے کرنے کے بجائے فٹ پاتھ خالی کرائیں ‘ شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے ‘ آئندہ 15روز میں شہر کے تمام فٹ پاتھ تجاوزات سے خالی کروا کر رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے فٹ پاتھ سے تجاوزات کا خاتمہ آج ہی سے شروع کردیا جائے ۔ سپریم کورٹ پہلے ہی ہرقسم کی تجاوزات کے خاتمے کا حکم دے چکی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے بعد کراچی میں بڑے پیمانے پر تجاوزات کے خاتمے کا آپریشن ہوا تھا ‘ بڑی بڑی عمارتوں تک کو گرا دیا گیا تھا۔ تجارتی مراکز جہاں ایک قدم بھی چلنا دشوار تھا۔ وہاں کی سڑکیں کشادہ ہوگئی تھی صدر ایمپریس مارکیٹ ‘ طارق روڈ ‘ حیدری مارکیٹ ‘ لیاقت آبادسمیت بیشتر علاقے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد کھنڈرات کا منظر پیش کررہے تھے ‘ فٹ پاتھوں پر قائم پتھارے ختم ہوچکے تھے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا فٹ پاتھوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا گیا۔ اس کی ابتداءہوٹل مافیا نے کی اور یوں دیکھا دیکھی پورا شہر ایک بار پھر تجاوزات کا جنگل بن گیا آج کراچی کا کوئی ایسا علاقےہ نہیں ہے جہاں فٹ پاتھ پر ہوٹل مافیا کا قبضہ نہ ہوا ہو مثال کے طور پر گلبرگ اور بفر زون کے علاقوں کو دیکھ لیجئے جہاں ہوٹل مافیا نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ آپ مین یونیورسٹی روڈ پو نکل جائیے جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اسپتال بھی موجود ہیں‘ جہاں فٹ پاتھ پر تخت بچھ چکے ہیں۔ سروس روڈ ز پر کچن بنائے گئے ہیں اور مین روڈ کو پارکنگ ایریا بنا کر گاڑیاں پارک کرائی جاتی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سڑکیں پارکنگ مافیا کو ٹھیکے پر دے دی گئی ہیں اس صورتحال کا افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ کہ جنہوں نے تجاوزات کو ختم کرانا تھا انہوں نے ہی دوبارہ تجاوزات قائم کروادی ہیں۔ فٹ پاتھ اور شہری حقوق کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر کسی شہری سے فٹ پاتھ پر چلنے کا حق چھین لیا گیا ہے تو اس سے بڑا جرم اور کیا ہوگا۔ میڈیا کی جانب سے اس کھلی دھاندلی کی جانب جب توجہ دلائی جاتی ہے تو ہوٹل مافیا کے لوگ جوڑ توڑ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے لوگوں کی ملی بھگت سے یہ لوگ اپنا دھندہ چلاتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے فٹ پاتھ خالی کرانے کے احکامات ان اداروں کو دیئے ہیں جو اس غیر قانونی اور غیر انسانی عمل میں خود ملوث ہیں ‘ فٹ پاتھ خالی کرانے کے لیے اگر وزیراعلیٰ سندھ یا صوبائی وزرا اپنا کردار ادا کریں تو شاید اس کے تھوڑے بہت نتائج سامنے آجائیں بصورت دیگر جن لوگوں نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا بھلا وہ ہائی کورٹ کے احکامات پر کیا عمل کریں گے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معزز عدالت عالیہ نے میئر کراچی کو فٹ پاتھ خالی کرانے کے لیے جو15دن کا ہدف دیاہے اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے۔ ہوتا بھی ہے یا نہیں ۔