کراچی(اسٹاف رپورٹر)حکومت اور اعلی عدلیہ کی جانب سے گٹکا اور اس کی مصنوعات کو منشیات قرار دیئے جانے کے بعد اس کی شہری آبادیوں تک پہنچ روکنے کے لیے ہرممکن ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں اس دھندے سے جڑے لوگ بھی اس کی سپلائی اس کے عادی افراد تک پہنچانے میں نت نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔گٹکا یا اس کی مصنوعات مسافر بسوں کے خفیہ خانوں یا مختلف قسم کے سامان میں چھپا کر کراچی اسمگل کیا جاتا ہے، کبھی سبزی کی گاڑیوں اور کبھی فروٹ کی پیٹیوں میں چھپا کر اسمگل کیا جاتا ہے۔ ریتی بجری کے لوڈرز اور پانی سپلائی کے ٹینکرز میں بھی خفیہ خانے بنا کر گٹکے کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔اب اس دھندے کو فروغ دینے کے لیے ایمبولینسز اور جعلی مریدوں کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ کراچی کی سٹی پولیس نے چوبیس گھنٹے کے دوران دو کاروائیوں میں گٹکے کی اسمگلنگ میں ملوث دو ایمبولینسز پکڑ لی ہیں۔پہلی کارروائی میں نیپئیر پولیس نے اس دھندے میں انتہا تک جانے والے ایک گروہ کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہے۔ان شاطر ملزمان نے اس مکروہ دھندے کے لیے ایک ایمبولینس تیار کی، اس میں نصب اسٹریچر کے نیچے گٹکے اور اس کی مصنوعات چھپائیں، اسٹریچر پر جعلی مریض کو لٹا کراس کے ساتھ ایک تیماردار بھی بٹھا لیا۔ یوں بلوچستان سے حب اور پھر موچکو چیک پوسٹ کے راستے کراچی میں داخل ہوکر نجانے کب سے اس ناسور کی گلی گلی محلے محلے سپلائی کرتے رہے ہیں۔پولیس حکام کے مطابق لیاری کے نیپئر تھانے کی حدود میں کشتی چوک پر شک یا خفیہ اطلاع کی بنا پر پولیس نے اس ایمبولینس کو روکا جس میں ایک مریض اسٹریچر پر لیٹا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک تیماردار اسے پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ عام طور پر تو اس طرح کی صورتحال میں پولیس چند سیکنڈ میں ایمبولینس کو جانے دیتی ہے لیکن پولیس کے مطابق ملزمان کی اوور ایکٹنگ اور ڈرامائی انداز پر شک گزرا تو گاڑی کی تلاشی لی گئی۔ایمبولینس کی سیٹوں اور اسٹیریچر کے نیچے مشہور بھارتی جے ایم گٹکے کی بوریاں پائی گئیں جن میں 200 بڑے بڑے جے ایم پیکٹ اور گٹکے کی 20 ہزار پڑیاں تھیں۔پولیس کے مطابق اس صورتحال پر گاڑی اور ملزمان کو اسپتال کی بجائے تھانے پہنچا دیا گیا۔