کراچی میں صفائی اور نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث شہر کا برا حال ہے‘ امید تو یہ تھی کہ وزیراعظم کی جانب سے کراچی کے لئے جس بھاری بھرکم پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر عمل بھی کیا جائے گا شہر کی صورت حال میں ضرور تبدیلی آجائے گی۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان ہوئے ایک ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر معلوم نہیں یہ پلان کہاں گم ہوگیا ہے۔ اب تو کراچی کے ابتر حالات پر سندھ ہائیکورٹ بھی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ بدھ کے روز بارشوں کی وجہ سے کراچی کی تباہی کی تحقیقات کرانے کے لئے دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے بڑے فکر انگیز ریمارکس دیئے اور کہا کہ کراچی کی صورتحال کسی کو نظر کیوں نہیں آرہی۔ کراچی کی سڑکوں پر گڑھے پڑچکے ہیں پورے شہر میں گٹر ابل رہے ہیں۔ بلدیہ کراچی اور ضلعی بلدیات کیا سڑکوں کی استرکاری بھی نہیں کرواسکتی۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے اپنے علاقوں میں جو کام کرواسکتے ہیں وہ بھی نہیں کرائے جارہے ہیں۔ کراچی پیکیج کے منصوبوں پر کب کام شروع ہوگا۔ اس میں تو تین سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ عدالت عالیہ نے کراچی کے مسائل کے مستقل حل کے لئے روڈ میپ طلب کرلیا ہے۔ عدالتی ریمارکس اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی چپقلش کی وجہ کراچی پیکیج منصوبے پر عملدرآمد دشواریوں کا شکار ہے اور لگتا ہے کہ آئندہ بھی کراچی پیکیج دعوؤں اور بیانات تک ہی محدود رہے گا۔ کراچی پیکیج پر دو حکومتوں نے مل کر کام کرنا ہے مگر ان کے درمیان آج تک کسی بھی معاملے پر کسی بھی مرحلے میں اتفاق نظر نہیں آیا۔ وزیراعظم عمران خان تو یہاں تک فرما چکے ہیں کہ کراچی کی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار پیپلزپارٹی ہے جو سندھ سے ووٹ حاصل کرتی ہے مگر کراچی کے لئے اس جماع نے پہلے کچھ کیا ہے نہ آئندہ کچھ کرے گی۔ شاید وزیراعظم درست فرما رہے ہوں لیکن روزِ روشن کی طرح سچی بات تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی دو سال میں کراچی کی حالت سدھارنے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جنہیں صوبائی رابطہ عملدرآمد کمیٹی کی سربراہی تفویض کی گئی تھی۔ انہوں نے 28 ستمبر کو کور کمانڈر کراچی کی موجودگی میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دی تھی اور بتایا تھا کہ پی آر ٹی منصوبہ آئندہ سال جون تک مکمل کرلیا جائے گا۔ یلو لائن‘ نکاسی و فراہمی آب اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں‘ سیوریج ٹریٹنمنٹ اینڈ ڈسپوزل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ برساتی نالوں‘ داخلی راستوں کی بہتری اور ماس ٹرانزٹ سسٹم کے منصوبے جلد شروع کئے جائیں گے برساتی نالوں کی سات اسکیموں پر 58.7 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ ان پر فوری طور پر کام شروع کرنے کے لئے تمام امور طے کرلئے گئے ہیں۔ لیاری ندی‘ ملیر ندی‘ گجرنالہ‘ محمود آباد اور اورنگی نالے میں اکتوبر کے دوران کام شروع کردیا جائے گا۔ اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ ان منصوبوں میں وفاقی حکومت کا کیا کردار ہوگا۔ ان منصوبوں میں جہاں تک پاک فوج کی شمولیت کا تعلق ہے تو اس میں پاک فوج کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کا نتیجہ ہے اس کا کریڈٹ پاک فوج ہی کو دیا جائے گا وفاقی حکومت کو نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود فی الحال کراچی پیکیج اور کراچی ٹرانسفارمیشن پلان گم نظر آتا ہے۔ سیاست کی گرما گرمی نے تمام منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔